افغانستان میں طالبان کی حکومت اور چین کی توقعات
طالبان کے افغانستان پر مکمل کنٹرول کو تقریباً ایک ہفتہ ہو
چکا ہے اور اس دوران جہاں طالبان رہنما اندرونی طور حکومت سازی کے عمل میں مصروف ہیں
تو وہیں دوسری طرف بین الاقوامی طاقتوں سے ان کی گفتگو و شنید کا سلسلہ بھی جاری
ہے۔ کیونکہ مستقبل کی افغان حکومت کی کامیابی کا زیادہ تر انحصار ان کی عالمی سطح
پر قبولیت پر ہے۔
لیکن اس سارے عمل میں اگر کوئی سب سے زیادہ فکرمند ہے تو وہ
افغانستان کے ہمسایہ ممالک ہیں جنہیں ایک طرف تو مہاجرین کے سیلاب کا خطرہ ہے تو
دوسری طرف افغان سر زمین سے دہشتگردی کے ممکنہ حملوں کا خطرہ بھی ہے۔ یہی وجہ ہے
افغانستان کے تمام ہمسایہ ممالک بشمول پاکستان کے انتہائی محتاط رویہ اپنائے ہوئے
ہیں اور طالبان سے امن برقرار رکھنے اور انسانی حقوق کی پاسداری کی امید کیے ہوئے
ہیں۔
افغان جنگ امریکی کمپنیوں کے لیے منافع بخش کاروبار کیسے بنی؟
افغانستان کے ہمسایہ ممالک میں جہاں ایک طرف پاکستان اور ایران
جیسے اسلامی ممالک ہیں تو وہیں دوسری طرف نہ صرف خطے کی بلکہ دنیا کی ایک بڑی فوجی
اور معاشی طاقت چین موجود ہے۔ اب یہ افغانستان کی بدقسمتی ہے یا خوش قسمتی اس کا فیصلہ
تو وقت کرے گا لیکن ایک بات تو طے ہے کہ افغانستان اور نہیں تو کم از کم معاشی طور
پر چین کے زیر اثر رہے گا۔ اس لیے چین اپنے مستقبل کے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے
نہ صرف اس کی منصوبہ بندی کر رہا بلکہ طالبان سے یہ توقع بھی کر رہا ہے کہ وہ چین
کو نظر انداز نہیں کریں گے۔ واضح رہے کہ اہم طالبان رہنما ملا عبد الغنی برادر بیجنگ
کا دورہ کر چکے ہیں۔
اب ایک طرف تو یہ سب کچھ معاشی طور پر ہو گا وہیں دوسری طرف
چین کے اندرونی معاملات میں بھی طالبان کا ممکنہ کردار ہو سکتا ہے کیونکہ
افغانستان کا چھوٹا سا علاقہ چین کی سرحد سے بھی منسلک ہے۔ اب یہ محض اتفاق ہے یا
کچھ اور کہ وہی افغانستان کا چھوٹا سا علاقہ چین کے اس صوبے سے لگتا ہے جس کی
جغرافیائی اہمیّت بہت زیادہ ہے اور وہی صوبہ ممکنہ طور پر چین میں انسانی حقوق کی
خلاف ورزیوں کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ اس صوبے کا نام ہے سنکیانگ، جہاں ایک طرف
لاکھوں اویغر مسلمانوں کیمپوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں تو وہیں یہ صوبہ کاٹن
کی پیداوار کا ایک اہم مرکز ہے۔ اس کے علاوہ جدید دنیا کے سب سے بڑے انفراسٹرکچر
منصوبے یعنی بیلٹ اینڈ روڈ کی اہم شاہرائیں بھی اسی صوبے سے گزرتی ہیں۔
افغانستان میں امریکہ کا قوم سازی کا نظریہ ناکام کیوں ہوا؟
اب اس صورت حال میں چین کی طالبان سے توقعات اور ممکنہ
مطالبات کیا ہیں؟ سب سے پہلے تو چین یہ چاہے گا کہ طالبان مشرقی ترکستان اسلامی
تحریک (ای ٹی آئی ایم) اور دیگر دہشت گرد قوتوں کے خلاف ایک واضح لکیر کھینچیں گے
جو سنکیانگ صوبے کی آزادی کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔ طالبان کسی بھی ایسی سرگرمی کی
حمایت نہیں کریں گے جس کا مقصد چین کے سنکیانگ صوبے کو غیر مستحکم کرنا ہو تاکہ چین
کی معاشی ترقی میں خلل نہ آسکے اور طالبان کو بھی اس کا فائدہ ہو۔
اس کے علاوہ چین کو یہ توقع بھی ہے کہ طالبان ایک ایسی
حکومت تشکیل دیں جس میں تمام افغان گروہوں کی نمائندگی ہو جو ایک مستقل امن کے لیے
شہروں میں لڑائی کا مکمل خاتمہ کرے تاکہ پائیدار امن کو یقینی بنایا جا سکے اور معیشت
کا پہیہ رواں دواں ہو۔ نئی حکومت افغان عوام
کی فلاح و بہبود کو فروغ دینے میں بھی سنجیدہ ہو اور بیرونی طاقتوں جیسا کہ امریکہ
کی جانب سے مستقبل میں افغانستان میں ممکنہ مداخلت کے لیے مزید کوئی بہانہ فراہم
نہ کرے۔ واضح رہے کہ 2001 میں افغانستان پر حملے کیلئے امریکہ کے پاس یہ بہانہ بھی
تھا کہ طالبان حکومت نے اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے نہیں کیا جن پر نائن الیون
حملوں کا الزام لگایا گیا تھا۔
یوم عاشور، افغانستان اور طالبان کی فتح: ایک حسین اتفاق؟
چین یہ بھی توقع رکھتا ہے کہ طالبان امریکہ اور دیگر قوتوں
جو کہ چین کی مخالف ہیں، انہیں چین کے اسٹریٹجک مفادات کو خطرے میں ڈالنے کے لیے
آلہ کار کے طور پر کام نہیں کریں گے۔ اس کی بجائے وہ پر امن ہمسائیوں کے طور پر رہیں
گے۔
اب اس ممکنہ صورت حال میں ہوگا کیا اس کا انحصار تو دونوں فریقین کے مستقبل کے فیصلوں پر ہوگا لیکن ایک بات تو طے ہیں کہ طالبان کو پیسوں کی ضرورت ہوگی اور چین دینے کو تیار ہو گا۔ بدلے میں مفادات کے تحفظ پر مزاکرات ہونگے اور عین ممکن ہے کہ طالبان کو بہت سی چیزوں پر سمجھوتا کرنا پڑے کیونکہ وہ بین الاقوامی قبولیت کے خواہشمند بھی ہونگے۔ اس لیے یہ توقع کی جا سکتی ہے اب کی بار طالبان کی شریعت قوانین کی تشریح مختلف ہو گی اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہو گی اور ان کے اب تک کے اقدامات اور اعلانات سے اس کے واضح اشارے ملے ہیں۔

0 Comments