افغانستان میں امریکی شکست اور قوم سازی کا ناکام نظریہ
گزرے ہفتے بلاشبہ افغانستان سے امریکی فوج کا افراتفری کے عالم میں انخلا اور طالبان کا کابل پر کنٹرول عالمی میڈیا کے سب سے بڑے موضوعات تھے۔ امریکی میڈیا کے بقول افغانستان کے معاملے نے امریکہ کی عالمی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے اور ساتھ ہی اتحادی ممالک کو ناراض بھی کرنے کا باعث بنا ہے اور وہ لوگ بھی صدر بائیڈن کی پالیسی پر شدید تنقید کر رہے ہیں جنہوں نے ہمیشہ امریکہ کی دنیا بھر میں فوجی کاروائیوں کی حمایت کی۔ یوں آج کی نوجوان امریکی نسل کیلئے کابل، نیا ویتنام ہے جب 1975 میں امریکی افواج یوں بھاگیں کہ آج بھی ماہرین اسے 'سائی گون تحریک' کا نام دیتے ہیں۔
اگر گزشتہ دو سال کے دوران افغان جنگ ختم کرنے کیلئے کی جانے والی امریکی کوششوں اور واقعات کے پس منظر کا جائزہ لیں تو یہ عمل اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ صدر بائیڈن کو افغان پالیسی سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے وراثت میں ملی تھی جس میں انہوں نے کوئی بڑی تبدیلی نہیں کی۔ انہوں نے صرف اس کے عملدرآمد میں تاخیر کی لیکن بگرام ایئر بیس سے رات کے اندھیرے میں امریکی افواج کے انخلا سے لیکر کابل پر طالبان کے کنٹرول تک، اور پھر اپنے شہریوں کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے ایئرپورٹ پہنچانے سے لیکر افغان شہریوں کے طیارے سے لٹک جانے تک، سب کچھ اتنا تیزی کے ساتھ ہوا کہ صدر بائیڈن بھی ہواس باختہ ہو گئے۔
ذرا تصور کریں کہ 11 اگست کو امریکی دفاعی ادارے صدر بائیڈن کو رپورٹ دیتے ہیں کہ طالبان موجودہ حالات کے تناظر میں کم از کم تین ماہ تک کابل پہنچ سکتے ہیں لیکن زمینی حقائق اس کے برخلاف جارہے تھے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس رپورٹ کے محض چار روز بعد ہی 15 اگست کو طالبان صدارتی محل میں داخل ہو گئے۔ اور آج کی ترقی یافتہ دنیا میں اگر آئیڈیل جمہوریت نافذ ہوتی تو ان حالات کو غلط انداز میں سمجھنے اور پیش کرنے پر اب تک صدر بائیڈن کا مواخذہ ہو چکا ہوتا لیکن موجودہ حالات میں صدر بائیڈن اپنے فیصلے کا بھرپور انداز میں دفاع کررہے ہیں۔ اس لیے اب ضروری یہ نہیں کہ یہ سب کیوں اور کیسے ہوا بلکہ ضروری یہ ہو گا کہ اس واقع سے امریکی دفاعی ادارے کیا کچھ سیکھتے ہیں کیونکہ بہرحال یہ امریکہ کی طویل ترین جنگ کا خاتمہ ہے۔
2001 میں نائن الیون واقع کے ردعمل میں شروع ہونے والی اس دہشت گردی کے خلاف جنگ نے ایک طرف تو طالبان کی حکومت کا فوری خاتمہ کیا اور وہ پہاڑوں میں چھپنے پر مجبور ہوگئے اور دوسری طرف افغانستان کے سیاسی مستقبل اور قوم سازی کیلئے نئے مواقع بھی فراہم کیے۔ اسی ضمن میں افغانستان میں پائیدار امن، جمہوری اداروں کی تعمیر اور افغان معاشرے کی ترقی اور تشکیل کیلئے حامد کرزئی کو چنا گیا۔ یوں قوم سازی کا نظریہ پوری طاقت سے افغان معاشرے پر نافذ کر دیا گیا۔
لیکن ایک دور افتادہ قبائلی معاشرے میں مغربی انداز حکمرانی اور جمہوریت نافذ کرنے کا یہ فلسفہ بری طرح ناکام رہا، جس کا عزم صدر بش نے کیا تھا اور کہا تھا کہ "آزادی کی امید بنی نوع انسان کیلئے ایک مستقل عمل ہے اور ہر انسان اسے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے"۔ لیکن آج جو کچھ افغانستان میں ہورہا ہے یقیناً صدر بش اپنے الفاظ پر غور کر رہے ہوں گے۔ کیونکہ افغان قوم کو آزادی دلانے کی یہ امریکی کوشش امریکی قوم کو دو ٹریلین ڈالر میں پڑی ہے۔
ان تمام حالات کو دیکھتے ہوئے کچھ امریکی ماہرین اور سابق سفارتکار اس بات کی حمایت کر رہے ہیں کہ افغانستان میں امریکی موجودگی کا جواز مئی 2011 میں پاکستان کے ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے کمپاؤنڈ پر کامیاب حملے کے ساتھ ختم ہو جانا چاہیے تھا۔ لیکن یہ بات آج بھی ایک معمہ ہے کہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد بھی افغانستان میں قوم سازی کیلئے امریکی افواج کا رکنا کیوں ضروری تھا؟ اور وہ بھی اس وقت جب یہ بات دس سال بعد کی جارہی ہو، آخر امریکہ کو دس سال بعد بھی کیا ملا سوائے اس کہ مزید فوجیوں کی ہلاکت اور اربوں ڈالر کا مزید نقصان اور آخر میں افغانستان پھر طالبان کے حوالے یعنی کہانی جہاں سے شروع ہوئی تھی وہیں آکے ختم ہو رہی ہے۔
یہاں دنیا کیلئے بالعموم اور امریکی عوام کیلئے بالخصوص قابل غور بات یہ ہوگی کہ افغانستان کی ناکام جنگ اور اس سے پہلے عراق کی ناکام جنگ اور اس سے پہلے سیگون (ویتنام) کی ناکام جنگ، آخر یہ سب مسلسل کیوں ہو رہا ہے؟ کیا امریکی سیاسی قیادت اور فوجی قیادت اور اسٹیبلشمنٹ سب ہی اتنے احمق ہیں کہ وہ ایک ہی تجربے کو بار بار دہرا رہے ہیں اور ہونے والے جانی اور مالی نقصان کا انہیں اندازہ تک نہیں۔ آخر کب وہ الارم بجے گا جب امریکی خارجہ پالیسی اور اداروں کے ساتھ ساتھ امریکی حکمران طبقے کو بھی اس بات کا احساس ہو گا کہ جنگ صرف تباہی لاتی ہے۔
امریکی پالیسی سازوں کو اب حالات کو ایک نئے زاویے سے سمجھنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس کے بعد بھی اگر وہ دنیا بھر میں قوم سازی اسی انداز میں کرتے رہے جیسی افغانستان میں کی ہے تو یہ نہ صرف ایک مہنگا ترین سودا ہوگا بلکہ یہ ایک ناکام نظریہ بھی کہلائے گا جس کا ممکنہ انجام امریکہ کی طاقت کا خاتمہ بھی ہو سکتا ہے اور خاص طور پر چین اور روس کی موجودگی میں اس دلیل کا وزن مزید بڑھ جاتا ہے۔

0 Comments