مینار پاکستان - خوش قسمتی کی بدقسمتی؟

میڈیا کا شور، ہنگامہ اور بدزبانی ذرا کم ہوئی ہو تو عرض ہے کہ اکثریت کو فیصلے کا اختیار ضرور ہے لیکن اس کا ہر فیصلہ درست ہو، یہ ضروری نہیں ہے۔ مینار پاکستان پر ہونے والے ایک خوشگوار اور خوشبودار 'ایونٹ' کو جس طرح معاشرے کی اجتماعی حس نے اپنے اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا ہے وہ نہ صرف شرمناک ہے بلکہ اس بات کا واضح ثبوت بھی ہے کہ اداروں کی پراسرار خاموشی معاشرے کو اندر سے کھوکھلا کر رہی ہے اور ایک ایسا معاشرہ جنم لے رہا ہے جہاں بحث اس بات پر نہیں کہ درست کیا ہے بلکہ بحث یہ ہے سب سے تیز، سب سے پہلے، سب سے آگے، سب سے چالاک، سب سے چرب زبان اور سب سے شہرت یافتہ کون ہے۔ اور ان سب عوامل کو پانے اور حاصل کرنے کیلئے کوئی بھی کسی بھی حد تک جاسکتا ہے اور ایسا ہم ہر روز ہوتا ہوا دیکھتے ہیں۔ یہ تو ممکن ہے کہ ایسا ہونے کی اشکال اور نوعیت مختلف ہو لیکن یہ ممکن نہیں کہ ایسا ہوتا نہ ہو اور چونکہ اس کا تعلق ہماری ذات سے ہوتا ہے اس لیے اسے نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ 

واقع کو لیکر سوشل میڈیا پر خوب بحث جاری ہے

ذرا تصور کیجیے ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں ہر سیاسی واقعہ 'سکرپٹڈ' ہوتا ہے۔ اور اس رجحان کا دفاع کرنے والوں کے پاس ایک باقاعدہ نظریہ ہے، دلائل ہیں، ماضی کے واقعات ہیں، اور وہ اس کو ہر پلیٹ فارم پر پیش کرتے ہیں اور ثابت کرتے ہیں کہ ہر چیز 'سکرپٹڈ' ہے۔ یوں عمران خان ایک 'سلیکٹڈ' لیڈر قرار پاتا ہے۔

اب دوسری طرف آجائیے جو اس بات کے حمایتی ہیں کہ  سیاست ایک جدوجہد ہے اور ہر مقام ایک قربانی مانگتا ہے اور ہر چیز ایک عمل کے بعد وقوع پذیر ہوتی ہے۔ یہاں اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں ان کے پاس نظریہ نہیں تو آپ غلط ہیں۔ یہ طبقہ بھی ایک باقاعدہ نظریہ رکھتاہے اور اس کا دفاع بھی کرتاہے اور یہ ثابت بھی کرتاہے کہ عمران خان ایک 'الیکٹڈ' لیڈر ہے اور ملک کی واحد امید ہے۔

عائشہ اکرم نامی ٹک ٹاکر کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ ایک سائنسی اصول 'کاز اینڈ ایفکٹ' کا عکاس ہے اور سوشل میڈیا پر دونوں اطراف سے یہ ثابت کیا جا چکا ہے کہ جو کچھ ہوا وہ غلط ہے یا جو کچھ ہوا وہ صحیح ہے، یہ ثابت کیا جا چکا ہے کہ عائشہ اکرم اس کی زمہ دار ہے اور یہ بھی ثابت کیا جا چکا ہے کہ عائشہ اکرم معصوم ہے اور معاشرہ بے حس ہے۔ کیونکہ یہاں بات درست ہونے کی یا اخلاقیات کی نہیں بلکہ ایک اجتماعی ریس کی ہے جس پر کوئی سمجھوتا نہیں۔

اس واقعے کا زمہ دار کوئی بھی ہو لیکن جانتے ہیں اس صورت حال میں متاثرہ فریق کون ہے؟ وہ نہیں جو آپ سوچ رہے ہیں۔ متاثرہ فریق وہ طبقہ ہے جو دونوں اطراف کے دلائل سنتا ہے جو شور میں بدل جاتے ہیں، تاریخی حوالے سنتا ہے جو کسی بھی چیز کو ثابت کرنے کیلئے کافی ہیں۔ اور پھر بھی کچھ رہ جائے تو مذہب کس دن کام آئے گا۔ لیکن یہ سب سننے، دیکھنے اور محسوس کرنے کے بعد بھی وہ طبقہ یہ فیصلہ نہیں کر پاتا کہ اسے کس کی حمایت کرنی ہے اور کس کی مخالفت، وہ اپنی پوری کوشش کے باوجود یہ نہیں سمجھ پاتا کہ سچ کیا ہے کیونکہ پردے کے سامنے جو کچھ ہوتا ہے اسے اکثر پردے کے پیچھے ہی ترتیب دیا جاتا ہے۔ یوں اس طبقے کو بلاوجہ کا عذاب سہنا پڑتا ہے۔

یہ ایک خوش قسمتی ہے کہ معلومات کی فراہمی تیز ترین ہے لیکن یہ اس کی بدقسمتی ہے کہ اس میں وہ معلومات بھی ہیں جو کسی بھی چیز کو دوسری طرف سے ثابت کرتی ہیں۔

شوبز ستاروں نے واقع کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے

یوں اگر کوئی ممکنہ جائے پناہ ہے تو وہ ہے 

The Philosophy of Nothingness، بس جیسے کچھ ہوا ہی نہیں، خاموشی ہے اور معاشرہ پر سکون ہے کیونکہ اگر آپ کے پاس اختیار نہیں تو 'نیت' ہی کافی ہے، خدا تو دیکھ رہا ہے نا ۔۔۔۔۔ جزاک اللہ