کابل ایئرپورٹ پر دھماکہ اور مکروہ بھارتی چہرہ 

اردو ادب میں ایک کہاوت ہے کہ ' بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی '. آج صبح ایک مرتبہ پھر امریکہ کی جدید ترین ٹیکنالوجی اور خفیہ معلومات ہوا میں اڑ گئیں جب کابل ایئرپورٹ کے احاطے میں دھماکہ ہوا جس میں 13 امریکی فوجی بھی ہلاک ہوگئے جبکہ مجموعی ہلاکتوں کی تعداد تقریباً 90 ہوچکی ہے۔

اس دھماکے میں ایک بات جو نوٹ کرنے والی ہے وہ یہ کہ یہ دھماکہ طالبان کی جانب سے نہیں کیا گیا اور یہ ہوا بھی ائیرپورٹ کے اس حصے میں
ہے جس کی سیکیورٹی کا مکمل کنٹرول امریکی فوج کے پاس تھا۔

Situation After the Blast
طالبان کے ترجمان نے اپنے ایک بیان میں بتایا کہ اسلامی امارت اپنے شہریوں کی حفاظت کیلئے اقدامات کررہی ہے اور طالبان کے کئی جنگجو اور عام افغان شہری بھی اس دھماکے میں ہلاک ہوئے ہیں۔

افغانستان میں طالبان کی حکومت اور چین کی توقعات

دوسری طرف صدر بائیڈن نے کابل بم دھماکوں کے ماسٹر مائنڈز کو خبردار کیا ہے اور کہا ہے کہ ذمہ داران کو اس کی بھاری قیمت چکانا ہو گی۔ ساتھ ہی انہوں نے ہلاک ہونے والے امریکی فوجیوں کو آزادی کے ہیروز قرار دیا۔

اب تک کی میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ دھماکے داعش کی جانب سے کروائے گئے ہیں اور اس حوالے سے مشترکہ تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ لیکن سوچنے والی بات یہ ہے کہ آخر امریکی فوج ائیرپورٹ کے ایک چھوٹے سے حصّے کی بھی حفاظت کرنے میں ناکام کیوں ہوئی؟ کیسے جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس امریکی فوجی دھماکے کو بھانپ ہی نہ سکے؟

لیکن اگر اس دھماکے کے بعد کی صورتحال کا جائزہ لیں اور یہ جاننے کی کوشش کریں کہ اس کا فائدہ کس کو ہو سکتا ہے تو چونکا دینے والی چیزیں سامنے آسکتی ہیں۔ دھماکے سے پہلے کابل ایئرپورٹ پر افغان شہریوں کا شدید رش تھا، دوسری طرف امریکہ کو انخلا کے عمل میں مشکلات کا سامنا تھا، تیسری طرف طالبان انتہائی محتاط رویہ اپنائے ہوئے تھے اور اب تک کسی جگہ سے ناخوشگوار واقعے کی اطلاع نہیں ملی تھی، چوتھی طرف طالبان کے کنٹرول سے بھارت انتہائی ناخوش تھا کیونکہ اس کے سارے منصوبے خاک میں مل گئے تھے۔

افغانستان میں امریکہ کا قوم سازی کا نظریہ ناکام کیوں ہوا؟

تو یہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ اس دھماکے کے بعد کابل ایئرپورٹ پر رش نہیں رہے گا، طالبان پر امریکی اعتماد میں کمی آئے گی تو اس صورت میں بھارت اپنا کردار ادا کرنے کا کہہ سکتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ دھماکے کا سہولت کار کوئی اندر کا شخص ہی ہو۔ کوئی ایسا ہو جس پر شک کرنا بھی مشکل ہو اور وہ افغانستان میں امن قائم ہوتا نہ دیکھ سکتا ہو۔ کوئی ایسا ہو جسے افغانستان سے امریکی فوج کا انخلاء ناپسند ہو، کوئی ایسا ہو جسے یہ خطرہ ہو کہ طالبان افغانستان سے باہر بھی کاروائیاں کر سکتے ہیں۔

دھماکے کا ماسٹر مائنڈ کوئی بھی ہو، اس کے اثرات آنے والے دنوں میں بھی نظر آئیں گے کیونکہ یہ دس سال بعد وہ سب بڑا واقع ہے جس میں دس سے زائد امریکی فوجی ہلاک ہوئے۔ اور امریکہ یقیناً جوابی کارروائی کرے گا جس سے حالات مزید کشیدہ ہو سکتے ہیں۔ اور امن خراب کرنے والی قوتوں کو اس کا فائدہ پہنچے گا۔

اس نازک موقع پر طالبان اور امریکا دونوں پر ہی یہ زمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ایک دوسرے پر اعتماد کریں اور انخلا کا عمل مکمل کریں۔ ایک دوسرے کے ساتھ تحقیقات میں تعاون کریں تاکہ آنے والے دنوں میں ایسے واقعات کو روکا جا سکے۔